.

.

  • فیس بک کی عربوں میں مقبولیت
    فیس بک کی عربوں میں مقبولیت

    ایک سروے کے مطابق عرب دنیا میں فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد اخبار پڑھنے والوں سے زیادہ ہے۔


    دبئی میں واقع تنظیم ’سپاٹ آن پبلک ریلیشنز‘ کا کہنا ہے کہ ایک کروڑ پچاس لاکھ سے زیادہ عرب فیس بک استعمال کرتے ہیں۔

    اس کے مقابلے میں عرب دنیا میں فرانسیسی، انگریزی اور عربی زبان میں اخبار پڑھنے والوں کی تعداد کل ملا کر ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے۔ ان اعداد و شمار سے اس خطے میں فیس بک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے بارے میں اندازے درست ثابت ہو رہے ہیں۔

    صرف مصر میں فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد پینتیس لاکھ ہے جو کسی بھی بڑے اخبار کی سرکولیشن سے زیادہ ہے۔

    سعودی عرب فیس بک استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد کے اعتبار سے عرب دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ متحدہ عرب امارات کی ایک تہائی آبادی فیس بک استعمال کرتی ہے۔

    عرب دنیا کی تیس کروڑ سے زیادہ آبادی زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔

    سروے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ فیس بک کو کتنے لوگ صرف رابطے یا گپ شپ کے لیے اور کتنے سیاسی یا سماجی نوعیت کی مہم کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    more
  • ’یو ٹیوب پر روزانہ دو ارب ہٹس‘
    ’یو ٹیوب پر روزانہ دو ارب ہٹس‘


    انٹرنیٹ کمپنی گوگل کا کہنا ہے کہ مشہورِ زمانہ ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ ’یو ٹیوب‘ پر روزانہ دو ارب سے زائد ہٹس آتی ہیں۔




    گوگل کے مطابق یہ تعداد امریکہ کے تین بڑے ٹی وی چینلز کے صارفین کی کل تعداد کے قریباً دوگنا کے برابر ہے۔

    یہ خبر ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب یو ٹیوب اپنی پانچویں سالگرہ منا رہی ہے۔

    یو ٹیوب کی بنیاد چیڈ ہرلی نے جاوید کریم اور سٹیون چین سے مل کر سنہ دو ہزار چار میں رکھی تھی۔ یہ تینوں افراد آن لائن رقوم کی ادائیگی کی سروس پے پال میں ملازم تھے۔ بعد ازاں گوگل نے سنہ 2006 میں یوٹیوب کو ایک ارب پینسٹھ کروڑ ڈالر کے عوض خرید لیا تھا۔

    اس ویب سائٹ کے شریک بانی چیڈ ہرلی نے بی بی سی نیوز کو بتایا ہے کہ ’ہم آن لائن ویڈیو مارکیٹ میں ترقی کے بہترین امکانات دیکھ رہے ہیں اور ہم اس مارکیٹ کے لیڈر ہیں‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ دو ارب ڈاؤن لوڈز ایک اہم سنگِ میل ہے لیکن’ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس سے کہیں آگے جانا ہے‘۔

    انہوں نے کہا ہے کہ ’میرے خیال میں جس مقام پر آج ہم ہیں اس کے بارے میں ہم نے نہ کبھی یہ سوچا تھا اور نہ ہی اس کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے ہمیں اس پر فخر ہے اور ہمیں ابھی بہت کام کرنا ہے‘۔

    more
  • ہاٹ میل: نئے پہلو متعارف کروانے کا اعلان
    ہاٹ میل: نئے پہلو متعارف کروانے کا اعلان



    مائیکروسافٹ نے یاہو اور گوگل کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی ای میل سروس میں نئے پہلو متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
    مائیکروسافٹ کے مطابق نئی ای میل سروس میں ہاٹ میل کے ذریعے بھیجی جانے والی دستاویزات کو اس کے آفس نامی سافٹ ویئر کے ذریعے دیکھا اور تبدیل کیا جا سکے گا۔

    نئی ای میل سروس میں سکیورٹی بھی بہتر کی جائے گی۔ ہاٹ میل دنیا کی سب سے بڑی ای میل سروس ہے لیکن اسے امریکہ میں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔

    تجزیے کرنے والی فرم ’کام سکور‘ کے مطابق امریکہ میں یاہو اب بھی مفت ای میل کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنیوں میں سر فہرست ہے، مائیکروسافٹ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ گوگل کی جی میل سروس تیزی سے بازار میں اپنے حصے میں اضافہ کر رہی ہے۔

    ونڈوز لائیو کے ایک ڈائریکٹر والٹ ہارپ کا کہنا ہے کہ ای میل سروس میں تبدیلیوں کا مقصد لوگوں کو اِن باکس میں آنے والی زیادہ سے زیادہ معلومات کو آسانی سے دیکھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ’آپ اپنی زندگی میں تنظیم یہیں سے لے کر آتے ہیں، اپنے ای میل اکاؤنٹ کے ذریعے۔‘

    ای میل سروس کے زیادہ تر نئے پہلو گرمیوں کے موسم کے بعد میسر ہوں گے جبکہ آفس میں تازہ ترین تبدیلیاں سن دو ہزار کی خزاں کے بعد ہی میسر ہوں گی۔

    ونڈوز لائیو ہاٹ میل دنیا میں ای میل فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے صارفین کی تعداد چھتیس کروڑ سے زیادہ ہے۔

    more
  • صدر نے وزیرِ داخلہ کی سزا معاف کر دی
    صدر نے وزیرِ داخلہ کی سزا معاف کر دی


    احتساب عدالت کی جانب سے تین، تین سال قید کی سزاؤں کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک کی اپیلیں خارج ہونے کے بعد صدر زرداری نے انکی سزائیں معاف کر دی ہیں۔
    صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کو بتایا ہے کہ یہ سزائیں وزیراعظم کی سفارش پر آئین کے آرٹیکل پینتالیس کے تحت معاف کی گئی ہیں۔

    آئین کے آرٹیکل پینتالیس کے تحت صدرِ پاکستان کو کسی بھی عدالت، ٹربیونل یا اتھارٹی کی جانب سے دی گئی سزا معطل کرنے، کم کرنے یا معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

    خیال رہے کہ پیر کو لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے احتساب عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزاؤں کے خلاف وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک کی اپیلیں خارج کر دی تھیں۔

    وفاقی وزیر داخلہ نے اپنی اپیلوں میں راولپنڈی کی احتساب عدالت کے دو الگ الگ ریفرنسوں میں دی گئی ان سزاؤں کو ختم کرنے کی اپیل کی تھی جو ان کی ملک میں عدم موجودگی کے دوران میں سنائی گئی تھیں۔

    راولپنڈی احتساب عدالت نے انہیں دانستہ روپوشی کےالزام میں تین، تین برس قید کی سزا سنائی تھی۔

    بائیس دسمبر سنہ دو ہزار نو کو لاہور ہائی کورٹ کے دورکنی بنچ نے اپنے عبوری حکم میں ان سزاؤں پر عملدرآمد روک دیا تھا اور ایک ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض وفاقی وزیر داخلہ کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

    لیکن پیر کو مختصر فیصلہ سناتے ہوئے دو رکنی بنچ نے وفاقی وزیرِ داخلہ کی ان دونوں اپیلیں خارج کر دیں۔

    more
  • ’مولانا کے خلاف شرارت کا مقدمہ‘
    ’مولانا کے خلاف شرارت کا مقدمہ

    اس ہفتے میں اتردیش میں دارالعلوم مدرسے کے لیے دنیا بھر مشہور شہر’ دیوبند‘گئی تو دیوبند کے ایک مولانا کے بارے میں یہ خبر تقریباً ہر اخبار میں تھی کہ مبینہ طور پر جہاز کو اڑانے کے الزام میں مولانا نورالھدیٰ کو دلی پولیس نے حراست میں لیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
    مولانا نورالھدیٰ دیوبند میں فاروقیہ مدرسے کے سربراہ ہیں۔ وہ بارہ مئی کو امارات کی فلائٹ سے لندن جارہے تھے اور فلائٹ کے اڑنے سے چند منٹ قبل انہیں ائرپورٹ اتھارٹی نے جہاز سے اتار لیا اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ جہاز میں سوار خاتون نے ان پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ فون پر جہاز کو اڑانے کی بات کر رہے تھے۔ مولانا نورالھدیٰ سے پولیس نظر بندی میں دو دن تک پوچھ گچھ کی گئی اور پھر پولیس نے پندرہ مئی کو ان کے خلاف شرارت کا مقدمہ درج کر کے انھیں ضمانت پر رہا کردیا۔

    کلِک مولانا نورالھدیٰ سے گفتگو سنیے

    میں نے مولانا نورالھدیٰ سے دیوبند میں رابطہ کیا اور ان کے مدرسے جاکرایک مختصر بات چیت میں یہ جاننے کی کوشش کی انکے ساتھ جو واقعہ پیش آیا انکی زندگی پر اس کا اثرا پڑا؟

    سوال: سب سے پہلے تو یہ بتائیے گا کہ جب آپ جہاز میں سوار تھے اور فلائٹ بس اڑنے ہی والی تھی تو ہوا کیا؟

    ج: میں سفر پر جارہا تھا۔ جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میری بغل والی سیٹ پر ایک لڑکی بیٹھی تھیں۔جہاز میں سوار اور لوگ بھی فون پر باتیں کررہے تھے اور وہ لڑکی بھی فون پر باتیں کررہی تھی۔اس لڑکی نے بھی اپنے لواحقین سے باتیں کی ۔ ہندی اور انگلش میں وہ باتیں کررہی تھی تو اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ہندوستانی تھی۔ میں نے بھی اپنی اہلیہ اور اپنے بیٹے سے فون پر بات کی۔میرالڑکا مجھے ائرپورٹ پر چھوڑنے آیا تھا، اس نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ ابو جہاز میں بیٹھ گئے تو میں نے اس سے کہا کہ جہاز میں بیٹھ گیا ہوں اور بس پندرہ بیس منٹ میں جہاز اڑنے والا ہے۔اس کے بعد میں نے کوئی اور بات نہیں کی ۔

    میں آپ کو یہ بتادوں کہ( جہاز اڑنےوالا ہے) کوئی ایسا جملہ نہیں جو قابل گرفت ہو! مسلمان ہونا جرم، ٹوپی کرتا پاجامہ پہننا جرم ہے۔ لگتا ہے اسی کی سزا دی جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔کسی بھی طرح سے علماء کا جرم ثابت نہیں ہوسکا۔ ہم مدرسے والے ہیں۔ ہم جرائم کے لیے نہیں پیدا ہوئے۔ ہم تو امن کا درس دیتے ہیں۔

    مولانا نورالھدا
    لیکن جہاز وقت پر نہیں اڑا، بلکہ خاصی دیر ہوگئی۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ لڑکی بھی اپنی سیٹ سے چلی گئی مجھے لگا کہ کہیں گئی ہوگی لوگ جہاز میں اپنی سیٹ سے جاتے رہتے ہے بیت الخلاء وغیرہ۔ تھوڑی دیر بعد ایک اہلکار میرے پاس آیا اور میرا پاسپورٹ مانگا اور اسکے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ اپنا سامان اٹھا لیجیے اور میرے ساتھ چلیے، اس لڑکی کو بھی جہاز سے اتار لیا گیا۔

    اس لڑکی سے تو میرے سامنے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی لیکن اہلکار نے مجھے بتایا کہ اس لڑکی سے انہیں بتایا ہے کہ میں جہاز کو اڑانے کی بات کر رہا تھا۔ میں نے کہا کہ ، میں تو عالم آدمی ہوں، مدرسے سے میرا تعلق ہے اور پڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ ہم یہ درس دیتے ہیں کہ اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہ پہنچائیے ، میں نے ان سے کہا کہ میری فون پر یہ بات ہوئی ہے اور آپ چاہیں تو کمپیوٹر سے یہ پتہ کرلیں کہ فون پر کیا بات ہوئی ہے۔ انہوں نے میرے سامان کی تلاشی لی۔ متعدد بار تلاشی لی۔کوئی چيز ان کی نہیں ملی۔

    ان کو چاہیے تھا کہ پھر وہ مجھے جانے دیتے۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ دوسری فلائٹ سے اس لڑکی کو بھیج دیاگیا۔ لیکن بار بار الگ الگ افسران انفرادی شکل میں یا پھر گروپ میں آتے رہے اور جہاز کو اڑانے والی بات کرتے رہے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ بتائیں کہ ٹرین کو کہتے ہیں چلنے والی ہے۔

    گاڑی کے بارے میں کہتے ہیں چل رہی ہے کیونکہ چلتی ہے اور جہاز کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اڑنے والا ہے۔ ورنہ مجھے یہ بتادیں اسکا متبادل کیا ہے جہاز اڑتا نہیں تو کیا کرتا ہے۔ ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ مجھے انگریزی میں کہنا چاہیے تھا کہ جہاز اڑنے والا ہے تو میں نے ان سے کہا کہ میں ہندوستانی ہوں اور ہندی بولتا ہوں۔ اس کے بعد وہ میرے ساتھ عزت سے پیش آئیں۔ اس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ ہر محکمے میں اچھے اور برے ملازم ہوتے ہیں۔ لیکن جو ذہنی تکلیف مجھے ہوئی اس سے مجھے ابھی تک بہت پریشانی ہے۔

    افسران نے میرے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں کی۔

    س: کن لوگوں سے آپنے مدد کے لیے رابط کیا؟

    میرے ساتھ میرا لڑکا تھا جومجھے ائرپورٹ چھوڑنے آیا تھا۔ زندگی میں میرے خاندان میں کسی کے ساتھ کبھی ایسا حادثہ نہیں ہوا، بس میرا اٹھارہ سال کا لڑکا اور بعد میں میرا بھائی بھی وہاں پہنچ گیا۔

    س: کسی سیاسی پارٹی نے آپ کی مدد کی؟

    ج: میں نے کسی سیاسی پارٹی سے رابط نہیں کیا۔مجھے پوری طرح سے معلومات بھی نہیں ملی۔ میرا پورا سامان ضبط تھا تو میں کسی سے رابطہ کر بھی نہیں سکا۔ مجھے جب تھانے لے کر گئے تو میں نے اپنے بیٹے کو فون کیا اور اسے پوری صورتحال بتائی۔

    س: گزشتہ دس برسوں پر نظر دوڑائیں تو اس طرح کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے۔

    ج:( سوال کے بیچ میں) میں آپ کو یہ بتادوں کہ( جہاز اڑنےوالا ہے) کوئی ایسا جملہ نہیں جو قابل گرفت ہو! مسلمان ہونا جرم، ٹوپی کرتا پاجامہ پہننا جرم، لگتا ہے اسی کی سزا دی جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔کسی بھی طرح سے علماء کا جرم ثابت نہیں ہوسکا۔ ہم مدرسے والے ہیں۔ ہم جرائم کے لیے نہیں پیدا ہوئے۔ ہم تو امن کا درس دیتے ہیں۔

    س: اب آپ نے کیا سوچا ہے۔ حکومت سے احتجاج درج کریں گے؟

    ج: میں تو رات ہی دلی سے دیوبند پہنچا ہوں اور ابھی میں نے کچھ سوچا نہیں ہے!

    س: لیکن جب اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ ایک طرح کے لوگوں کی شناخت پر سوال اٹھتاہے اور اگر آپ احتجاج نہیں کریں گے تو اسکے منفی اثرات ہوسکتے ہیں؟

    ج: اخبارات کے مطالعے سے معلومات ہوتا ہے کہ لوگوں میں غصہ ہے نہ صرف دیوبند کے لوگوں میں بلکہ دوسرے علاقوں کے لوگوں میں۔

    س: لیکن میں نے جو اخبارات پڑھے ہیں اس میں دیوبند سے کوئی بیان نہیں آیا؟

    ج: اس کے بارے میں کچھ نہیں کہ سکتا ہے۔ ابھی میں ذہنی طور پر فکر مند ہوں۔

    س: کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کہا ہے کہ امیریٹس فلائٹ کو آپ کو معاوضہ دینا چاہیے؟

    ج: اگر انہوں نے ایسا کہا ہے تو میں ان نے کو مبارکباد دیتا ہوں!

    س: لیکن مسلم کمیونٹی کی جانب کوئی احتجاج نہ ہونا کیا کہتا ہے؟

    ج: اس پر احتجاج ہونا چاہیے اور مجھے نہیں پتہ کیا اس پر مسلم تنظیمیں کیا سوچ رہی ہیں!

    آخر میں جب میں نے ان سے یہ پوچھا کہ جب آپ کو ایک ’شدت پسند‘ سمجھا گیا تو کیا آپ کو صدمہ ہوا تو انکا کہنا تھا کہ ' میرے ذہن میں ابھی کچھ نہیں آرہا ہے'۔

    more