.

.

  • ’مولانا کے خلاف شرارت کا مقدمہ‘

    ’مولانا کے خلاف شرارت کا مقدمہ

    اس ہفتے میں اتردیش میں دارالعلوم مدرسے کے لیے دنیا بھر مشہور شہر’ دیوبند‘گئی تو دیوبند کے ایک مولانا کے بارے میں یہ خبر تقریباً ہر اخبار میں تھی کہ مبینہ طور پر جہاز کو اڑانے کے الزام میں مولانا نورالھدیٰ کو دلی پولیس نے حراست میں لیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
    مولانا نورالھدیٰ دیوبند میں فاروقیہ مدرسے کے سربراہ ہیں۔ وہ بارہ مئی کو امارات کی فلائٹ سے لندن جارہے تھے اور فلائٹ کے اڑنے سے چند منٹ قبل انہیں ائرپورٹ اتھارٹی نے جہاز سے اتار لیا اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ جہاز میں سوار خاتون نے ان پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ فون پر جہاز کو اڑانے کی بات کر رہے تھے۔ مولانا نورالھدیٰ سے پولیس نظر بندی میں دو دن تک پوچھ گچھ کی گئی اور پھر پولیس نے پندرہ مئی کو ان کے خلاف شرارت کا مقدمہ درج کر کے انھیں ضمانت پر رہا کردیا۔

    کلِک مولانا نورالھدیٰ سے گفتگو سنیے

    میں نے مولانا نورالھدیٰ سے دیوبند میں رابطہ کیا اور ان کے مدرسے جاکرایک مختصر بات چیت میں یہ جاننے کی کوشش کی انکے ساتھ جو واقعہ پیش آیا انکی زندگی پر اس کا اثرا پڑا؟

    سوال: سب سے پہلے تو یہ بتائیے گا کہ جب آپ جہاز میں سوار تھے اور فلائٹ بس اڑنے ہی والی تھی تو ہوا کیا؟

    ج: میں سفر پر جارہا تھا۔ جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میری بغل والی سیٹ پر ایک لڑکی بیٹھی تھیں۔جہاز میں سوار اور لوگ بھی فون پر باتیں کررہے تھے اور وہ لڑکی بھی فون پر باتیں کررہی تھی۔اس لڑکی نے بھی اپنے لواحقین سے باتیں کی ۔ ہندی اور انگلش میں وہ باتیں کررہی تھی تو اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ہندوستانی تھی۔ میں نے بھی اپنی اہلیہ اور اپنے بیٹے سے فون پر بات کی۔میرالڑکا مجھے ائرپورٹ پر چھوڑنے آیا تھا، اس نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ ابو جہاز میں بیٹھ گئے تو میں نے اس سے کہا کہ جہاز میں بیٹھ گیا ہوں اور بس پندرہ بیس منٹ میں جہاز اڑنے والا ہے۔اس کے بعد میں نے کوئی اور بات نہیں کی ۔

    میں آپ کو یہ بتادوں کہ( جہاز اڑنےوالا ہے) کوئی ایسا جملہ نہیں جو قابل گرفت ہو! مسلمان ہونا جرم، ٹوپی کرتا پاجامہ پہننا جرم ہے۔ لگتا ہے اسی کی سزا دی جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔کسی بھی طرح سے علماء کا جرم ثابت نہیں ہوسکا۔ ہم مدرسے والے ہیں۔ ہم جرائم کے لیے نہیں پیدا ہوئے۔ ہم تو امن کا درس دیتے ہیں۔

    مولانا نورالھدا
    لیکن جہاز وقت پر نہیں اڑا، بلکہ خاصی دیر ہوگئی۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ لڑکی بھی اپنی سیٹ سے چلی گئی مجھے لگا کہ کہیں گئی ہوگی لوگ جہاز میں اپنی سیٹ سے جاتے رہتے ہے بیت الخلاء وغیرہ۔ تھوڑی دیر بعد ایک اہلکار میرے پاس آیا اور میرا پاسپورٹ مانگا اور اسکے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ اپنا سامان اٹھا لیجیے اور میرے ساتھ چلیے، اس لڑکی کو بھی جہاز سے اتار لیا گیا۔

    اس لڑکی سے تو میرے سامنے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی لیکن اہلکار نے مجھے بتایا کہ اس لڑکی سے انہیں بتایا ہے کہ میں جہاز کو اڑانے کی بات کر رہا تھا۔ میں نے کہا کہ ، میں تو عالم آدمی ہوں، مدرسے سے میرا تعلق ہے اور پڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ ہم یہ درس دیتے ہیں کہ اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہ پہنچائیے ، میں نے ان سے کہا کہ میری فون پر یہ بات ہوئی ہے اور آپ چاہیں تو کمپیوٹر سے یہ پتہ کرلیں کہ فون پر کیا بات ہوئی ہے۔ انہوں نے میرے سامان کی تلاشی لی۔ متعدد بار تلاشی لی۔کوئی چيز ان کی نہیں ملی۔

    ان کو چاہیے تھا کہ پھر وہ مجھے جانے دیتے۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ دوسری فلائٹ سے اس لڑکی کو بھیج دیاگیا۔ لیکن بار بار الگ الگ افسران انفرادی شکل میں یا پھر گروپ میں آتے رہے اور جہاز کو اڑانے والی بات کرتے رہے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ بتائیں کہ ٹرین کو کہتے ہیں چلنے والی ہے۔

    گاڑی کے بارے میں کہتے ہیں چل رہی ہے کیونکہ چلتی ہے اور جہاز کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اڑنے والا ہے۔ ورنہ مجھے یہ بتادیں اسکا متبادل کیا ہے جہاز اڑتا نہیں تو کیا کرتا ہے۔ ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ مجھے انگریزی میں کہنا چاہیے تھا کہ جہاز اڑنے والا ہے تو میں نے ان سے کہا کہ میں ہندوستانی ہوں اور ہندی بولتا ہوں۔ اس کے بعد وہ میرے ساتھ عزت سے پیش آئیں۔ اس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ ہر محکمے میں اچھے اور برے ملازم ہوتے ہیں۔ لیکن جو ذہنی تکلیف مجھے ہوئی اس سے مجھے ابھی تک بہت پریشانی ہے۔

    افسران نے میرے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں کی۔

    س: کن لوگوں سے آپنے مدد کے لیے رابط کیا؟

    میرے ساتھ میرا لڑکا تھا جومجھے ائرپورٹ چھوڑنے آیا تھا۔ زندگی میں میرے خاندان میں کسی کے ساتھ کبھی ایسا حادثہ نہیں ہوا، بس میرا اٹھارہ سال کا لڑکا اور بعد میں میرا بھائی بھی وہاں پہنچ گیا۔

    س: کسی سیاسی پارٹی نے آپ کی مدد کی؟

    ج: میں نے کسی سیاسی پارٹی سے رابط نہیں کیا۔مجھے پوری طرح سے معلومات بھی نہیں ملی۔ میرا پورا سامان ضبط تھا تو میں کسی سے رابطہ کر بھی نہیں سکا۔ مجھے جب تھانے لے کر گئے تو میں نے اپنے بیٹے کو فون کیا اور اسے پوری صورتحال بتائی۔

    س: گزشتہ دس برسوں پر نظر دوڑائیں تو اس طرح کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے۔

    ج:( سوال کے بیچ میں) میں آپ کو یہ بتادوں کہ( جہاز اڑنےوالا ہے) کوئی ایسا جملہ نہیں جو قابل گرفت ہو! مسلمان ہونا جرم، ٹوپی کرتا پاجامہ پہننا جرم، لگتا ہے اسی کی سزا دی جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔کسی بھی طرح سے علماء کا جرم ثابت نہیں ہوسکا۔ ہم مدرسے والے ہیں۔ ہم جرائم کے لیے نہیں پیدا ہوئے۔ ہم تو امن کا درس دیتے ہیں۔

    س: اب آپ نے کیا سوچا ہے۔ حکومت سے احتجاج درج کریں گے؟

    ج: میں تو رات ہی دلی سے دیوبند پہنچا ہوں اور ابھی میں نے کچھ سوچا نہیں ہے!

    س: لیکن جب اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ ایک طرح کے لوگوں کی شناخت پر سوال اٹھتاہے اور اگر آپ احتجاج نہیں کریں گے تو اسکے منفی اثرات ہوسکتے ہیں؟

    ج: اخبارات کے مطالعے سے معلومات ہوتا ہے کہ لوگوں میں غصہ ہے نہ صرف دیوبند کے لوگوں میں بلکہ دوسرے علاقوں کے لوگوں میں۔

    س: لیکن میں نے جو اخبارات پڑھے ہیں اس میں دیوبند سے کوئی بیان نہیں آیا؟

    ج: اس کے بارے میں کچھ نہیں کہ سکتا ہے۔ ابھی میں ذہنی طور پر فکر مند ہوں۔

    س: کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کہا ہے کہ امیریٹس فلائٹ کو آپ کو معاوضہ دینا چاہیے؟

    ج: اگر انہوں نے ایسا کہا ہے تو میں ان نے کو مبارکباد دیتا ہوں!

    س: لیکن مسلم کمیونٹی کی جانب کوئی احتجاج نہ ہونا کیا کہتا ہے؟

    ج: اس پر احتجاج ہونا چاہیے اور مجھے نہیں پتہ کیا اس پر مسلم تنظیمیں کیا سوچ رہی ہیں!

    آخر میں جب میں نے ان سے یہ پوچھا کہ جب آپ کو ایک ’شدت پسند‘ سمجھا گیا تو کیا آپ کو صدمہ ہوا تو انکا کہنا تھا کہ ' میرے ذہن میں ابھی کچھ نہیں آرہا ہے'۔

0 comments:

Leave a Reply