.

.

  • ایک سکول کی کہانی


    ایک سکول کی کہانی




    یہ کہانی اس جنوبی وزیرستان کی ہے جہاں نہ تو طالبان ہیں اور نہ ہی فوج۔ لوگوں کا گزارہ یا تو ٹرا نسپورٹ کے بزنس پر ہے یا ٹماٹر، سیب اور چلغوزے کی پیداوار پر یا پھر سمگلنگ اور کراچی میں کام کاج پر۔ روزمرہ انتظام و معیشت پر پولٹیکل ایجنٹ اور اس کے طفیلیوں کا تسلط ہے اور دل و دماغ پر مولوی کا راج ہے۔ سرحد پار خانہ جنگی ہے اور جنوبی وزیرستان سرخ کافروں کے خلاف سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی جہادی گزرگاہ بنا ہوا ہے۔

    ایسے میں انیس سو اکیاسی کا سال آتا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے دارالحکومت وانا سب ڈویژن کے وزیری عمائدین پولٹیکل ایجنٹ رستم شاہ مہمند کے ہاں جمع ہوتے ہیں۔ موضوع ہے تعلیمی پسماندگی سے کیسے نکلا جائے۔ خواندگی کا تناسب پوری ایجنسی میں دس فیصد کے لگ بھگ ہے اور صرف دو فیصد عورتیں ا ب پ ت پہچان سکتی ہیں۔

    میٹنگ اس فیصلے پر ختم ہوتی ہے کہ وانا میں موسی نیکہ نامی ایک بڑا انگلش میڈیم سکول قائم ہوگا۔اس کے لیے زمین مقامی لوگ دیں گے۔ باہر سے قابل اساتذہ لائے جائیں گے۔طلبا کا داخلہ میرٹ پر ہوگا۔ ابتدا میں نرسری سے مڈل تک کلاسیں ہوں گی اور رفتہ رفتہ یہ سکول اپ گریڈ ہوتا چلا جائے گا۔ یہ سکول اپنی مدد آپ کے تحت چلے گا ۔اس کے لئے وانا سب ڈویژن سے گذرنے والے ہر مال بردار ٹرالر ، ٹرک اور پک اپ سے بالترتیب ساڑھے سات سو روپے سے لے کر ڈھائی سو روپے تک سکول ٹیکس وصول ہوگا۔اس ٹیکس سے پچاس لاکھ روپے تک سالانہ اوسط آمدنی ہوگی جو پولٹیکل ایجنٹ کے پاس بطور امانت رہے گی۔اور یوں موسی نیکہ سکول رواں دواں رہے گا۔

    سن دو ہزار نو کےمطابق بارہ سے پندرہ کروڑ روپیہ موسی نیکہ سکول ٹیکس کی مد میں پولٹیکل ایجنٹ کے خزانے میں جمع ہوا۔ لیکن سکول کو انیس سو اکیاسی سے دو ہزار نو تک کے عرصے میں صرف ایک کروڑ دو لاکھ روپے میسر آسکے۔

    سکول کا پہلا پرنسپل بشیر نواز قریشی کو بنایا گیا جنہوں نے کیڈٹ کالج رزمک کی پرنسپل شپ چھوڑ کر یہاں آنا پسند کیا۔ ڈاکٹر بیری گل اور مسز ڈونی نے برطانیہ چھوڑ کر وانا کے اس سکول میں پڑھانا پسند کیا۔یوں موسی نیکہ پبلک سکول بتیس ایکڑ زمین پر پندرہ کمروں سے شروع ہوا اور پھر اس کی زمین ستر ایکڑ ہوگئی اور کمروں کی تعداد دو سو پانچ تک پہنچ گئی۔ایک ہزار کے لگ بھگ طلبا کے لئے سو کے قریب اکیڈمک اور نان اکیڈمک سٹاف تھا۔

    مگر یہ سکول صرف تین برس رواں رہ سکا۔انیس سو چوراسی میں اس کا زوال شروع ہوا۔اساتذہ چھوڑ چھوڑ کر جانے لگے۔علاقے کی بااثر مذہبی شخصیت مولوی نور محمد کے بھائی پرنسپل بن گئے۔اس وقت کے پولٹیکل ایجنٹ نے بورڈ آف گورنرز میں تبدیلی کرکے انگوٹھا چھاپ لوگوں کے نام ڈال دیئے۔ سکول کے نام پر مال بردار گاڑیوں سے ٹیکس لینے کی روایت برقرار رہی۔

    سن دو ہزار نو تک ایک اندازے کے مطابق بارہ سے پندرہ کروڑ روپیہ موسی نیکہ سکول ٹیکس کی مد میں پولٹیکل ایجنٹ کے خزانے میں جمع ہوا۔لیکن سکول کو انیس سو اکیاسی سے دو ہزار نو تک کے عرصے میں صرف ایک کروڑ دو لاکھ روپے میسر آسکے۔گزشتہ برس حالت یہ تھی کہ سکول میں صرف ایک سو چونتیس طلبا پڑھ رہے تھے۔ جبکہ وانا کے اٹھائیس دیگر پرائیویٹ سکولوں میں بارہ ہزار سے زائد طلبا زیرِ تعلیم تھے۔

    ایسے میں سن دو ہزار دس کا سال موسی نیکہ پبلک سکول کے لئے نیک بخت ثابت ہوا۔ وانا کے وہ سپوت جو اسوقت اہم سرکاری عہدوں اور کاروبار میں ہیں ان کی وانا ویلفئیر ایسوسی ایشن کی کوششوں سے سکول کو اپ گریڈ کرکے گیارہویں جماعت تک کردیا گیا۔ اسوقت تین سو چالیس طلبا کی دو ماہ سےکلاسیں جاری ہیں۔ گاڑیوں کے ٹول ٹیکس جمع کرنے کے لئے تیس لاکھ روپے سالانہ کا نیلام ہوچکا ہے۔چھ لاکھ روپے سالانہ کی گرانٹ وزارتِ قبائیلی امور کی طرف سے ملے گی۔اور وانا سب ڈویزن کے ترقیاتی بجٹ کا چھ فیصد بھی سکول کو ملے گا۔پرخطر حالات کے سبب اساتذہ کو زیادہ معاوضے پر یہاں آنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

    ایک ایسی قبائیلی ایجنسی میں جہاں محسود علاقے سے ننانوے فیصد لوگ نقلِ مکانی کرچکے ہیں۔جبکہ جنوبی وزیرستان کے ایک سو پانچ پرائمری سکولوں میں سے بانوے یا تو بند پڑے ہیں یا مقامی عمائدین کے مہمان خانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔موسی نیکہ پبلک سکول وانا کی بحالی اس علاقے سے آنے والی مسلسل بری خبروں کے ہجوم میں ایک اچھی خبر ہے۔

0 comments:

Leave a Reply