.

.

  • قیدی کو جیل میں شادی کی اجازت


    قیدی کو جیل میں شادی کی اجازت


    لاہور ہائی کورٹ نے سزائے موت کے ایک قیدی کو اس کی منگیتر کے ساتھ جیل میں شادی کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
    عدالت نے جیل حکام کو ہدایت کی ہے کہ قیدی کے نکاح کا انتظام کیا جائے اور نکاح کی رسم جیل سپرٹنڈنٹ کے دفتر میں ادا کی جائے۔

    عدالت نے یہ حکم ایک مقامی لڑکی کی اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے دیا جس میں یہ استدعا کی گئی تھی اسے جیل میں قید اپنے منگیتر سے شادی کرنے کی اجازت دی جائے۔

    یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہوگا جب جیل کے اندر سزائے موت کے کسی قیدی کی شادی ہوگی۔

    لاہور سے نامہ نگار عبادالحق نے بتایا کہ لائبہ سحر نامی لڑکی نے اپنی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا کہ اس کی عتیق الرحمن نامی شخص کے ساتھ منگنی ہوئی تھی تاہم اس کے منگیتر کو ایک مقدمہ میں سزائے موت ہوگئی ہے اور جیل میں قید ہے۔

    درخواست میں بتایا گیا کہ درخواست گزار اپنے قیدی منگیتر کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے اور اس مقصد کے لیے کچھ عرصہ قبل جیل کو حکام کو درخواست بھی دی تھی جو منظور نہیں کی گئی۔

    اٹھائیس سالہ عتیق الرحمن گزشتہ دس برس سے جیل میں ہے اور اسے سنہ دو ہزار دو میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اغواء برائے تاوان کے ایک مقدمے میں موت کی سزا سنائی ہے۔

    درخواست گزار لڑکی کے وکیل سید مظہر حسین نے عدالت کو بتایا کہ عتیق الرحمن نے اپنی سزا کے خلاف عدالت سے رجوع کررکھا ہے اور اس ضمن میں دائر کی جانے والی اپیل اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

    عدالت کے روبرو جیل حکام کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ جیل قواعد میں ایسی شق نہیں ہے جس کے تحت جیل میں کسی قیدی کو شادی کرنے کی اجازت دی جائے۔ جس پر درخواست گزار کے وکیل مظہر حسین نے یہ موقف اختیار کیا کہ شادی کرنا ایک بنیادی حق ہے اور کسی شہری کو اس کے اس حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا ۔

    وکیل نے یہ بھی نکتہ اٹھایا کہ جیل قواعد کے تحت کسی قیدی کو شادی کرنے سے نہیں روکا گیا اس لیے ان کی موکلہ کو اپنے قیدی منگیتر سے شادی کرنے کی اجازت دی جائے۔

    خیال رہے کہ چند روز قبل پاکستان کے صوبہ سندھ کی جیلوں میں قید مرد افراد کے ساتھ ان کی بیویوں کو مہینے میں ایک مرتبہ رات گزارنے کی اجازت دی گئی ہے۔


0 comments:

Leave a Reply